افغانستان میں امریکا کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فضائی کارروائی شروع ہونے کے بعد انہوں نے پاک افغان سرحد پر نگرانی مزید بڑھادی ہے۔
میرین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اے پی کو انٹرویو میں بتایا کہ اس فوجی کارروائی میں امریکا اور پاکستان مل کر کام نہیں کر رہے ہیں، تاہم امریکا نے افغانوں کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے اشتراک میں اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جاری آپریشن کے اثرات سے نمٹنے بالخصوص شدت پسندوں کے سرحد عبور کر کے افغانستان میں پناہ لینے کے حوالے سے افغان اور امریکی افواج پوری طرح تیار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکا طویل عرصے سے افغان سرحد سے ملحقہ لاقانونیت کا شکار شمالی وزیرستان میں پناہ لیے ہوئے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے
پاکستان پر زور دیتا رہا ہے۔
ڈنفورڈ کا مزید کہنا تھا کہ امریکی حکام نے اتوار سے شروع ہونے والے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد سے محفوظ علاقوں کی تلاش میں بہت سے خاندانوں کو سرحد عبور کرتے دیکھا ۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی یہ تعین کرنے کی کوشش کر رہے کہ اب تک کتنے خاندان افغانستان پہنچے ہیں تاہم یہ ایک مشکل کام ہے ۔
دوسری جانب، وزیراعظم نواز شریف نے صدر حامد کرزئی سے کہا ہے کہ وہ افغانستان فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
نواز شریف نے منگل کی رات اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلیفون پر درخواست کی کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقے سے ملحق اپنی سرحد کو سیل کریں۔